AD

گوجرانوالہ جلسے کا مقدمہ: حزب اختلاف کے خلاف حکومتی اقدامات کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟

پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کی حالیہ رسہ کشی نے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ ایک جانب ملک کی حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا سیاسی اتحاد قائم کر کے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کر چکی ہیں تو دوسری جانب حکومت اس تحریک کو ناکام قرار دینے کی کوشش میں دکھائی دیتی ہے۔

کراچی میں پیر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری پر مچنے والا واویلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ہونے والے حزبِ اختلاف کے پہلے جلسے کے منتظمین کے خلاف بھی سرکاری مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

متعلقہ

پولیس نے 16 اکتوبر کو ہونے والے جلسے کے منتظمین کے خلاف اپنی مدعیت میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 440، 147، اور 149، پنجاب کے آرڈیننس برائے انسدادِ متعدی امراض 2020 اور پنجاب ساؤنڈ سسٹمز ریگولیشنز ایکٹ 2015 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ 16 اکتوبر کو سلمان خالد ولد خالد محمود بٹ نامی ایک شخص نے گوجرانوالہ کے جناح سٹیڈیم میں پی ڈی ایم کا جلسہ کروانے کے لیے اجازت لی تھی جس میں اس کا وقت رات 11 بجے تک طے پایا تھا تاہم ایف آئی آر کے مطابق یہ جلسہ رات کو 1:45 بجے تک جاری رہا، حالانکہ سلمان خالد، ایم این اے خرم دستگیر اور ایم این اے محمود بشیر ورک نے حلف نامہ جمع کروایا تھا کہ جلسہ منعقد کرنے کی شرائط کی پاسداری کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

مقدمے میں کیا الزامات عائد کیے گئے؟

پولیس نے جلسہ منتظمین کے خلاف ایف آئی آر میں 11 الزامات عائد کیے ہیں جن میں شرکا کو کورونا سے بچانے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنا، طے شدہ وقت کی خلاف ورزی، جی ٹی روڈ پر خلافِ اجازت استقبالیہ کیمپ لگانا، سٹیڈیم کے اندر گاڑیاں لانا اور پولیس پارٹی پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کرنا شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مزید الزامات میں سزا یافتہ افراد کا جلسے سے خطاب کرنا، مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومت اور ملکی اداروں کے خلاف تقاریر، اور جی ٹی روڈ کو بلاک کرنا شامل ہیں۔

ان مقدمات کا فائدہ حکومت کو یا اپوزیشن کو؟

معروف تجزیہ نگار نصرت جاوید نے بی بی سی کے عابد حسین کو بتایا کہ پاکستانی سیاست میں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے اور ماضی میں یہ سب ہوتا رہا ہے اور وہی پرانی روایات دوبارہ استعمال کی جا رہی ہیں۔

’اگر وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت پر ہیبت طاری ہو گئی ہے۔ اگر کسی کو پکڑا ہے، تو چھوڑا کیوں؟ اگر غداری کا پرچہ کاٹا ہے تو واپس کیوں کر دیا؟ جب آپ ایک قدم لیتے ہیں تو پھر اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ورنہ حکومتی کمزوری کا پیغام جاتا ہے اور مخالفین کو شہ ملتی ہے۔‘

اس صورتحال میں حکومت کے ان اقدامات کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ اس سوال پر نصرت جاوید نے کہا کہ ’ان ہتھکنڈوں سے نقصان صرف حکومت کو ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’کسی حکومت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ عوام کو ریاستی طاقت کے ناگزیر ہونے کا فریب دے سکیں۔ ان کا ایسا رعب ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی کے خلاف اقدام اٹھائیں تو اس کو بچنے کا موقع نہ ملے۔ اگر آپ ڈرانے دھمکانے کے بعد کوئی اصل قدم نہ اٹھائیں تو پھر آپ کی اپنی تضحیک ہوتی ہے اور مذاق بنتا ہے۔'

کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے پیپلز پارٹی کے لیے اس وقت مشکل پیدا کر دی جب ان کی حکومت میں ان کے ایک اہم سیاسی اتحادی کے اہم رکن کو گرفتار کیا گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس صورتحال میں پیپلز پارٹی نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا۔

’سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی احتیاط بہت معنی خیز تھی‘

پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندارج اور ان کی گرفتاری سے پہلے آئی جی سندھ سے متعلق مبینہ واقعے کا نوٹس لیں اور اس معاملے کی انکوائری کروائیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کراچی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کور کمانڈر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے سے منسلک حقائق کا تعین کریں اور جلد از جلد اپنی رپورٹ پیش کریں۔

اس سے پہلے پی پی پی سے متعلق کہا جاتا رہا کہ انھوں نے اس معاملے میں محتاط رویہ اپنایا اور پی پی پی کے رہنما ان الزامات کی بھی تردید کرتے رہے کہ سندھ حکومت کو اس گرفتاری کا پہلے سے علم تھا۔

کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی ضیا الرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کی جانب سے اس واقعے پر اتنا محتاط رویہ اپنانا کافی معنی خیز تھا۔‘

وہ کہتے ہیں ’یہ جماعت مختلف معاملات پر کھل کر بیانات جاری کرتی ہے، ان کے وزیر اعلیٰ اور مشیران کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ان کے اتنے اہم اتحادی کے ایک رکن کو گرفتار کیے جانے کے بعد پورے دن ان کی خاموشی اور محتاط بیانات بہت عجیب لگ رہے تھے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ ایک تاثر یہ بنتا رہا کہ اس مسئلے پر اختلاف رائے ہے اور گذشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔

سندھ پولیس کی جانب سے کی گئی ٹویٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس ہیجان کو سمجھنے کے لیے پس منظر میں جانا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس اور پیپلز پارٹی کے مابین تلخ تعلقات رہے ہیں مگر اب سندھ اسمبلی سے ایک نیا پولیس ایکٹ نافذ کیا گیا ہے جو کہ پورے پاکستان سے مختلف ہے اور موجودہ آئی جی بھی سندھ حکومت کی مرضی کا ہے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس گرفتاری پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز سندھ پولیس کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ’کیپٹن صفدر کے خلاف پولیس کارروائی قانون کے مطابق کی گئی ہے اور اس کی تحقیقات غیر جانبدار اور میرٹ پر ہوں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ حکومت اور پولیس کے مابین ابھی بھی اختلاف ہیں اور لگتا ہے کہ وہ شاید ان کے ماتحت نہیں ہیں۔